یہاں سے ڈوب کر جانا ہے مجھ کو
سمندر میں اتر جانا ہے مجھ کو
ابھی تو کو بہ کو ہے خاک میری
ابھی تو در بہ در جانا ہے مجھ کو
کبھی جاتے ہوئے لمبے سفر پر
اچانک ہی ٹھہر جانا ہے مجھ کو
یہ حسرت ہے کہوں میں دوستوں سے
ہوئی اب شام گھر جانا ہے مجھ کو
تجھے اپنا سبھی کچھ سونپنا ہے
ترے دامن میں بھر جانا ہے مجھ کو

غزل
یہاں سے ڈوب کر جانا ہے مجھ کو
مغنی تبسم