یہاں سے چلیں گے وہاں سے چلیں گے
کہو گے تو سارے جہاں سے چلیں گے
کماں سے چلے ہیں نہ جو تیر اب تک
وہی تیر تیری زباں سے چلیں گے
اچانک ہی جن کو ٹھہرنا پڑا ہے
مرے پاؤں کے وہ نشاں سے چلیں گے
جنہیں شوق منصب و انعام ہے وہ
جھکا کر نظر بے زباں سے چلیں گے
مٹا دیں گے ہستی و بستی تمہاری
وہ نالے جو درد نہاں سے چلیں گے

غزل
یہاں سے چلیں گے وہاں سے چلیں گے
حبیب کیفی