EN हिंदी
یہاں سے چلیں گے وہاں سے چلیں گے | شیح شیری
yahan se chalenge wahan se chalenge

غزل

یہاں سے چلیں گے وہاں سے چلیں گے

حبیب کیفی

;

یہاں سے چلیں گے وہاں سے چلیں گے
کہو گے تو سارے جہاں سے چلیں گے

کماں سے چلے ہیں نہ جو تیر اب تک
وہی تیر تیری زباں سے چلیں گے

اچانک ہی جن کو ٹھہرنا پڑا ہے
مرے پاؤں کے وہ نشاں سے چلیں گے

جنہیں شوق منصب و انعام ہے وہ
جھکا کر نظر بے زباں سے چلیں گے

مٹا دیں گے ہستی و بستی تمہاری
وہ نالے جو درد نہاں سے چلیں گے