EN हिंदी
یہاں رہنے میں دشواری بہت ہے | شیح شیری
yahan rahne mein dushwari bahut hai

غزل

یہاں رہنے میں دشواری بہت ہے

شعیب نظام

;

یہاں رہنے میں دشواری بہت ہے
یہی مٹی مگر پیاری بہت ہے

ہوس سے ملتے جلتے عشق میں اب
جنوں کم ہے اداکاری بہت ہے

چلو اب عشق کا ہی کھیل کھیلیں
ادھر کچھ دن سے بیکاری بہت ہے

میں سائے کو اٹھانا چاہتا ہوں
اٹھا لیتا مگر بھاری بہت ہے

ادھر بھی خامشی کا شور برپا
ادھر سنتے ہیں تیاری بہت ہے

زباں سے سچ نکل جاتا ہے اکثر
ابھی ہم میں یہ بیماری بہت ہے