یہاں پر مرا کچھ بھی تھا ہی نہیں
سو گھاٹا ذرا بھی ہوا ہی نہیں
رگوں تک میں خوشبو تری جذب کی
ہوا پے بھروسہ کیا ہی نہیں
مرے دل کی حالت جو تھی وہ رہی
یہ پودا شجر تو ہوا ہی نہیں
وہ کیا ماجرا تھا کھلا ہی نہیں
نشانے پے پتھر لگا ہی نہیں
کہانی دئیے کی بہت خوب ہے
مگر اس میں ذکر ہوا ہی نہیں
جوابوں کے چہروں پے ہیں الجھنیں
سوالوں کا اب تک پتہ ہی نہیں
سفر کا میں آغاز کیسے کروں
مرے حق میں کوئی دعا ہی نہیں
غزل
یہاں پر مرا کچھ بھی تھا ہی نہیں
نشانت شری واستو نایاب