یہاں کسے ہنسنے کی فرصت رکھی ہے
ایک سے نمٹو دوسری آفت رکھی ہے
ہر جانب اک کھیل ہے آپا دھاپی کا
منظر منظر کیسی وحشت رکھی ہے
سوچوں تو بازار بھی چھوٹا لگتا ہے
گھر کے اندر اتنی ضرورت رکھی ہے
تیرے دل کو پیار سے مالا مال کرے
پھول کے اندر جس نے نکہت رکھی ہے
ایک کے دکھ میں سارے رویا کرتے ہیں
گھر میں ابھی اجداد کی دولت رکھی ہے
غزل
یہاں کسے ہنسنے کی فرصت رکھی ہے
پرویز اختر