EN हिंदी
یہاں کانپ جاتے ہیں فلسفے یہ بڑا عجیب مقام ہے | شیح شیری
yahan kanp jate hain falsafe ye baDa ajib maqam hai

غزل

یہاں کانپ جاتے ہیں فلسفے یہ بڑا عجیب مقام ہے

انور مرزاپوری

;

یہاں کانپ جاتے ہیں فلسفے یہ بڑا عجیب مقام ہے
جسے اپنا اپنا خدا کہیں اسے سجدہ کرنا حرام ہے

مری بے رخی سے نہ ہو خفا مرے ناصحا مجھے یہ بتا
جو نظر سے پیتا ہوں میں یہاں وہ شراب کیسے حرام ہے

جو پتنگا لو پہ فدا ہوا تو تڑپ کے شمع نے یہ کہا
اسے میرے درد سے کیا غرض یہ تو روشنی کا غلام ہے

شب انتظار میں بارہا مجھے انورؔ ایسا گماں ہوا
جسے موت کہتا ہے یہ جہاں وہ کسی کے وعدے کا نام ہے