یہاں جزا و سزا کا کچھ اعتبار نہیں
فریب حد نظر ہے عروج دار نہیں
نگاہ لطف میں غم کا مرے شمار نہیں
یہ اعتبار بانداز اعتبار نہیں
سکون موت ہی انجام اضطراب فراق
جسے قرار نہ آئے وہ بیقرار نہیں
خبر نہیں کہ کھلے کتنے پھول گلشن میں
کہ آج جیب و گریباں میں ایک تار نہیں
خدا کے نام پہ دل کو سپرد عشق کیا
اب اس کے بعد امید مآل کار نہیں
دو آتشہ نہ سہی درد ہی سہی ساقی
جو ان میں فرق کرے کچھ وہ بادہ خوار نہیں
اب اس کو آ کے بجھائے کوئی تو ہم جانیں
یہ داغ دل ہے چراغ سر مزار نہیں
رہین عیش ہے خو کردۂ تمنا ہے
وہ بادہ خوار جو سرگشتۂ خمار نہیں
زمانہ گھوم رہا ہے مری نگاہوں میں
مجھے قرار نہیں تو کہیں قرار نہیں
نہ جا نہ جا کبھی اس گلشن طرب میں نہ جا
جنوں کا نام جہاں موسم بہار نہیں
زمانہ میری تباہی پہ جان دے دیتا
میں خود ہی اپنی تباہی کا سوگوار نہیں
کرشمہ سازیٔ نیرنگ حسن کیا کہئے
ہزاروں عہد ہیں اور کوئی استوار نہیں
شب فراق میں انداز حشر ہے شوکتؔ
اب اس کے بعد قیامت کا انتظار نہیں
غزل
یہاں جزا و سزا کا کچھ اعتبار نہیں
شوکت تھانوی