یہاں ہو رہیں ہیں وہاں ہو رہیں ہیں
نہاں تھیں جو باتیں عیاں ہو رہیں ہیں
ارادے ہمارے دعائیں تمہاری
ہوائیں ہی خود بادباں ہو رہیں ہیں
لٹائی کسی نے جوانی وطن پہ
دشائیں بھی شہنائیاں ہو رہیں ہیں
کئی آسماں آ گرے ہیں زمیں پر
زمینیں کئی آسماں ہو رہیں ہیں
رقیبوں تلک کیسے پہنچی وہ باتیں
جو تیرے مرے درمیاں ہو رہیں ہیں
کوئی پھول دیوی کے چرنوں تک آیا
کہیں منتشر پتیاں ہو رہیں ہیں
غزل
یہاں ہو رہیں ہیں وہاں ہو رہیں ہیں
آلوک یادو