یہاں الگ سے کوئی کب حصار میرا ہے
مجھے سمیٹے ہوئے خود غبار میرا ہے
نہ چھین پائے گا مجھ سے کوئی نقوش خیال
یہ پھول میرے ہیں یہ شاخسار میرا ہے
چلوں تو دھوپ کا بادل ہوں میں خود اپنی جگہ
رکوں تو ہر شجر سایہ دار میرا ہے
پڑھوں تو نامہ کسی کا ہے چہرہ چہرہ مجھے
لکھوں تو خامہ حقیقت نگار میرا ہے
جگہ نہ دے مجھے پلکوں پہ کم نہیں یہ بھی
کہ موجزن تری آنکھوں میں پیار میرا ہے
حصار باندھ لے مجھ میں کہا اداسی نے
کوئی نہ آئے یہاں یہ حصار میرا ہے
نہ جانے کب سے یہاں منتظر تھا میں اے یاسؔ
خبر جب آئی وہاں انتظار میرا ہے
غزل
یہاں الگ سے کوئی کب حصار میرا ہے
نور محمد یاس