EN हिंदी
یاس کی منزل میں تنہائی تھی اور کچھ بھی نہیں | شیح شیری
yas ki manzil mein tanhai thi aur kuchh bhi nahin

غزل

یاس کی منزل میں تنہائی تھی اور کچھ بھی نہیں

شیو چرن داس گوئل ضبط

;

یاس کی منزل میں تنہائی تھی اور کچھ بھی نہیں
جرأت پرواز شرمائی تھی اور کچھ بھی نہیں

آج میخانے میں اذن عام تھا ساقی ترے
اس لئے دنیا ادھر آئی تھی اور کچھ بھی نہیں

آج میری کشتئ طوفاں شکن نے دوستو
ڈوب جانے کی قسم کھائی تھی اور کچھ بھی نہیں

لوگ جس کو ناگ‌ و ناگن کا فسوں کہنے لگے
تم نے شاید زلف لہرائی تھی اور کچھ بھی نہیں

نوح کی کشتی سلامت رہ گئی ہم بچ گئے
ذات حق کی رحم فرمائی تھی اور کچھ بھی نہیں

منزل صبر و رضا میں جب کبھی رکھا قدم
ہاتھ کانپے روح تھرائی تھی اور کچھ بھی نہیں

دوستوں کو جب سنایا ضبطؔ نے اپنا کلام
اک صدائے مرحبا آئی تھی اور کچھ بھی نہیں