یارو حدود غم سے گزرنے لگا ہوں میں
مجھ کو سمیٹ لو کہ بکھرنے لگا ہوں میں
چھو کر بلندیوں سے اترنے لگا ہوں میں
شاید نگاہ وقت سے ڈرنے لگا ہوں میں
پر تولنے لگی ہیں جو اونچی اڑان کو
ان خواہشوں کے پنکھ کترنے لگا ہوں میں
آتا نہیں یقین کہ ان کے خیال میں
پھر آفتاب بن کے ابھرنے لگا ہوں میں
کیا بات ہے کہ اپنی طبیعت کے بر خلاف
دے کر زباں فراغؔ مکرنے لگا ہوں میں
غزل
یارو حدود غم سے گزرنے لگا ہوں میں
فراغ روہوی