یار پہلو میں نہاں تھا مجھے معلوم نہ تھا
تار گیسو رگ جاں تھا مجھے معلوم نہ تھا
دل میں وہ غنچہ دہاں تھا مجھے معلوم نہ تھا
گل شگوفہ میں نہاں تھا مجھے معلوم نہ تھا
وہ ہی نور دو جہاں تھا مجھے معلوم نہ تھا
وہی یاں تھا وہی واں تھا مجھے معلوم نہ تھا
دل مرا کعبۂ جاں تھا مجھے معلوم نہ تھا
نالہ گلبانگ اذاں تھا مجھے معلوم نہ تھا
آنکھ پر ڈال دیا دیر و حرم کا پردہ
وہی دونوں میں نہاں تھا مجھے معلوم نہ تھا
صفت نور بصارت وہ مرا پردہ نشیں
میرے پردہ سے عیاں تھا مجھے معلوم نہ تھا
حسن صورت نے دیا جلوۂ معنی کا پتہ
بت نہ تھا سنگ نشاں تھا مجھے معلوم نہ تھا
جانب کعبۂ مقصود تن زار مرا
روش ریگ رواں تھا مجھے معلوم نہ تھا
بے خبر پڑھنے لگا مومنؔ و غالبؔ کا کلام
کنج خلوت میں بیاںؔ تھا مجھے معلوم نہ تھا
غزل
یار پہلو میں نہاں تھا مجھے معلوم نہ تھا
بیان میرٹھی