EN हिंदी
یار نے اس دل ناچیز کو بہتر جانا | شیح شیری
yar ne is dil-e-nachiz ko behtar jaana

غزل

یار نے اس دل ناچیز کو بہتر جانا

لالہ مادھو رام جوہر

;

یار نے اس دل ناچیز کو بہتر جانا
داغ کو پھول تو قطرے کو سمندر جانا

کٹ گئے دیکھتے ہی ہم تو تری چشم غضب
جنبش ابروئے خم دار کو خنجر جانا

سچ ہے یکساں ہے عدم اور وجود دنیا
ایسے ہونے کو نہ ہونے کے برابر جانا

آنکھ ہم بادہ کشوں سے نہ ملا اے جمشید
اپنے چلو کو ترے جام سے بڑھ کر جانا

کب زمانے میں ہے محتاج مکاں خانہ خراب
ہو گئی دل میں کسی کے جو جگہ گھر جانا

سمجھے جوہرؔ کو برا اس کی شکایت کیا ہے
وہی اچھا ہے جسے آپ نے بہتر جانا