EN हिंदी
یار کے تیر کا نشانہ ہوں | شیح شیری
yar ke tir ka nishana hun

غزل

یار کے تیر کا نشانہ ہوں

جوشش عظیم آبادی

;

یار کے تیر کا نشانہ ہوں
اپنے طالع کا میں دوانا ہوں

ناتوانی بھی دیکھ کر مجھ کو
لگی رونے میں وہ توانا ہوں

دیکھ دیکھ اس کی زلف ابتر کو
دل یہی چاہتا ہے شانہ ہوں

مو پریشاں ہے چشم زار و طرار
شجر بید ہی سے مانا ہوں

اس سے چشم وفا رکھوں ؔجوشش
میں بھی تیری طرح دوانا ہوں