یار کے تیر کا نشانہ ہوں
اپنے طالع کا میں دوانا ہوں
ناتوانی بھی دیکھ کر مجھ کو
لگی رونے میں وہ توانا ہوں
دیکھ دیکھ اس کی زلف ابتر کو
دل یہی چاہتا ہے شانہ ہوں
مو پریشاں ہے چشم زار و طرار
شجر بید ہی سے مانا ہوں
اس سے چشم وفا رکھوں ؔجوشش
میں بھی تیری طرح دوانا ہوں
غزل
یار کے تیر کا نشانہ ہوں
جوشش عظیم آبادی