EN हिंदी
یار کے نرگس بیمار کا بیمار رہا | شیح شیری
yar ke nargis-e-bimar ka bimar raha

غزل

یار کے نرگس بیمار کا بیمار رہا

ارشد علی خان قلق

;

یار کے نرگس بیمار کا بیمار رہا
یہی آزار مرے درپئے آزار رہا

عمر بھر شیفتۂ چشم و لب یار رہا
کبھی صورت رہی مجھ کو کبھی بیمار رہا

دل کو میرے نہ ذرا رنج شب تار رہا
شمع افروز خیال رخ و کدار رہا

لب پہ دل سوختوں کے نالہ شرر بار رہا
سرد مہری کا ترے گرم یہ بازار رہا

میں فدا رخ پہ وہ زلفوں کا گرفتار رہا
دل کو تجھ سے نہ مجھے دل سے سروکار رہا

خود فروشی سر بازار جو لائی ان کو
مصر میں ایک نہ یوسف کا خریدار رہا

میرے مرنے سے پھنسا دام غم و رنج میں وہ
میں رہا ہو گیا صیاد گرفتار رہا

بت پرستی میں بھی بھولی نہ مجھے یاد خدا
ہاتھ میں سبحہ گلے میں مرے زنار رہا

لاکھ اسیروں کو کیا تم نے رہا زنداں سے
ایک محروم عنایت یہ گنہ گار رہا

تیری اے وحشت دل دست درازی نہ گئی
بعد مردن بھی کفن میں نہ کوئی تار رہا

روزن قبر سے جھانکے جو وہ عیسیٰ آیا
مر گئے پر بھی ہمیں دید کا آزار رہا

چوم لیں نشہ میں آج ان کی نشیلی آنکھیں
عین بے ہوشی لذت میں بھی ہشیار رہا

رخ سے اپنے جو نقاب اس نے اٹھایا تو کیا
پردۂ شرم و حیا مانع دیدار رہا

دشت وحشت میں رہے قیس سے لاکھوں ہم راہ
سارے دیوانوں کا میں قافلہ سالار رہا

بے خطا کون دل آزار خفا تھا تم سے
عمر بھر تو جو قلقؔ زیست سے بیزار رہا