یار کے درسن کے خاطر جان اور تن بھول جا
مکھ منور دیکھ اس کا رنگ گلشن بھول جا
چڑھ کے تازی عشق کا نت 'مَن عَرَف' کا سیر کر
'قد عرف' کا پہنچ اے دل محل و مسکن بھول جا
ترک دے اسلام کو اور کفر سارا دور کر
چھوڑ دے حرص و ہوا فرزند اور زن بھول جا
آرسی میں دل کے ہر دم دیکھ مکھڑا روح کا
جام کو جمشید کے اور فکر درپن بھول جا
دم بہ دم دل کے نظر سوں پی کے درسن کا شراب
اے علیمؔ اللہ جہاں کے مکر اور فن بھول جا
غزل
یار کے درسن کے خاطر جان اور تن بھول جا
علیم اللہ