یار کب دل کی جراحت پہ نظر کرتا ہے
کون اس کوچے میں جز تیرے گزر کرتا ہے
اب تو کر لے نگہ لطف کہ ہو توشۂ راہ
کہ کوئی دم میں یہ بیمار سفر کرتا ہے
اپنی حیرانی کو ہم عرض کریں کس منہ سے
کب وہ آئینے پہ مغرور نظر کرتا ہے
عمر فریاد میں برباد گئی کچھ نہ ہوا
نالہ مشہور غلط ہے کہ اثر کرتا ہے
یار کی بات ہمیں کون سناتا ہے یقیںؔ
کون کب گل کی دوانوں کو خبر کرتا ہے
غزل
یار کب دل کی جراحت پہ نظر کرتا ہے
انعام اللہ خاں یقینؔ