EN हिंदी
یار کب دل کی جراحت پہ نظر کرتا ہے | شیح شیری
yar kab dil ki jarahat pe nazar karta hai

غزل

یار کب دل کی جراحت پہ نظر کرتا ہے

انعام اللہ خاں یقینؔ

;

یار کب دل کی جراحت پہ نظر کرتا ہے
کون اس کوچے میں جز تیرے گزر کرتا ہے

اب تو کر لے نگہ لطف کہ ہو توشۂ راہ
کہ کوئی دم میں یہ بیمار سفر کرتا ہے

اپنی حیرانی کو ہم عرض کریں کس منہ سے
کب وہ آئینے پہ مغرور نظر کرتا ہے

عمر فریاد میں برباد گئی کچھ نہ ہوا
نالہ مشہور غلط ہے کہ اثر کرتا ہے

یار کی بات ہمیں کون سناتا ہے یقیںؔ
کون کب گل کی دوانوں کو خبر کرتا ہے