یار ابتدائے عشق سے بے زار ہی رہا
بے درد دل کے در پئے آزار ہی رہا
جس دن سے دوست رکھتا ہوں اس کو حجاب حسن
اپنا ہمیشہ دشمن دیدار ہی رہا
یہ عشق پردہ در نہ چھپایا چھپا دریغ
سیتا ہمیشہ میں لب اظہار ہی رہا
قید فرنگ زلف نہ کافر کو ہو نصیب
جو واں پھنسا ہمیشہ گرفتار ہی رہا
جاں بخش تھا جہاں کا مسیحائے لب ترا
لیکن میں اس کے دور میں بیمار ہی رہا
گر قتل بے گناہ تھا منظور یار کو
مرنے پہ اپنے میں بھی تو تیار ہی رہا
دوران لطف میں ترے اے مبہوس نواز
محروم وصل سے یہ گنہ گار ہی رہا
حسرتؔ ہمیشہ اس کی شب انتظار میں
جوں طالع رقیب میں بیدار ہی رہا

غزل
یار ابتدائے عشق سے بے زار ہی رہا
حسرتؔ عظیم آبادی