یاں مدعی اپنا کسے اے یار نہ دیکھا
ہے کوئی جسے تیرا طلب گار نہ دیکھا
سوتوں کو جگایا مرے نالے نے عدم کے
پر طالع خوابیدہ کو بیدار نہ دیکھا
کل بزم میں سب پر نگہ لطف و کرم تھی
اک میری طرف تو نے ستم گار نہ دیکھا
جز چشم بتاں مے کدۂ دہر میں ؔجوشش
ہم نے تو کسی مست کو ہشیار نہ دیکھا

غزل
یاں مدعی اپنا کسے اے یار نہ دیکھا
شیخ محمد روشن جوشش لکھنوی