یادوں کی تجسیم پہ محنت ہوتی ہے
بیکاری بھرپور مشقت ہوتی ہے
ایسا خالی اور اتنا گنجان آباد
آئینے کو دیکھ کے حیرت ہوتی ہے
دیواروں کا اپنا صحرا ہوتا ہے
اور کمروں کی اپنی وحشت ہوتی ہے
اس کو یاد کرو شدت سے یاد کرو
اس سے تنہائی میں برکت ہوتی ہے
بچپن جوبن اور بڑھاپا اور پھر موت
سب چلتے رہنے کی عادت ہوتی ہے
جینا تو بس لفظ ہے اک بے معنی لفظ
موت سے پہلے موت کی فرصت ہوتی ہے
ایسی آزادی اب اور کہاں ہوگی
عشق میں سب کرنے کی اجازت ہوتی ہے
آنسو موتی جگنو تارہ سورج چاند
ہر قطرے کی اپنی قسمت ہوتی ہے
غزل
یادوں کی تجسیم پہ محنت ہوتی ہے
احمد شہریار