EN हिंदी
یادوں کے سب رنگ اڑا کر تنہا ہوں | شیح شیری
yaadon ke sab rang uDa kar tanha hun

غزل

یادوں کے سب رنگ اڑا کر تنہا ہوں

فاطمہ حسن

;

یادوں کے سب رنگ اڑا کر تنہا ہوں
اپنی بستی سے دور آ کر تنہا ہوں

کوئی نہیں ہے میرے جیسا چاروں اور
اپنے گرد اک بھیڑ سجا کر تنہا ہوں

جتنے لوگ ہیں اتنی ہی آوازیں ہیں
لہجوں کا طوفان اٹھا کر تنہا ہوں

روشنیوں کے عادی کیسے جانیں گے
آنکھوں میں دو دیپ جلا کر تنہا ہوں

جس منظر سے گزری تھی میں اس کے ساتھ
آج اسی منظر میں آ کر تنہا ہوں

پانی کی لہروں پر بہتی آنکھوں میں
کتنے بھولے خواب جگا کر تنہا ہوں

میرا پیارا ساتھی کب یہ جانے گا
دریا کی آغوش تک آ کر تنہا ہوں

اپنا آپ بھی کھو دینے کی خواہش میں
اس کا بھی اک نام بھلا کر تنہا ہوں