یادوں کا جزیرہ شب تنہائی میں
مصروف ہے یادوں کی پذیرائی میں
اب بھی وہی اظہار تغافل کا مزاج
اب بھی وہی اندیشہ شناسائی میں
اثبات نفی ہو کہ نفی ہو اثبات
کیوں جاؤں میں الفاظ کی گہرائی میں
کچھ لوگ تو منزل کی خبر بھی لے آئے
ہم مست رہے لذت خود رائی میں
چھوڑوں بھی خیال ان کا تو کیا حاصل ہو
کیا خاک کمی آئے گی رسوائی میں
آنے میں مسیحا کو تھا پہلے ہی حجاب
ناصح بھی تھا اندیشۂ رسوائی میں
تفریق کے خوگر تو سبھی ایک ہوئے
مصروف ہیں ہم لوگ صف آرائی میں
کس درجہ مسرت ہے کہ اب خون شہیدؔ
کام آیا تری انجمن آرائی میں
غزل
یادوں کا جزیرہ شب تنہائی میں
عزیز الرحمن شہید فتح پوری