EN हिंदी
یادیں چلیں خیال چلا اشک تر چلے | شیح شیری
yaaden chalen KHayal chala ashk-e-tar chale

غزل

یادیں چلیں خیال چلا اشک تر چلے

ہوش ترمذی

;

یادیں چلیں خیال چلا اشک تر چلے
لے کر پیام شوق کئی نامہ بر چلے

دل کو سنبھالتے رہے ہر حادثے یہ ہم
اب کیا کریں کہ خود ترے گیسو بکھر چلے

ہر گام پر شکست نے یوں حوصلہ دیا
جس طرح ساتھ ساتھ کوئی ہم سفر چلے

شوق طلب نہ ہو کوئی بانگ جرس تو ہو
آخر کوئی چلے تو کس امید پر چلے

اب کیا کرو گے سیر سمن زار آرزو
رت جا چکی چڑھے ہوئے دریا اتر چلے

راہوں میں ہوشؔ سنگ برستے ہیں ہر طرف
لے کر یہ کاروان تمنا کدھر چلے