EN हिंदी
یاد اس کی کہاں بھلا دی ہے | شیح شیری
yaad uski kahan bhula di hai

غزل

یاد اس کی کہاں بھلا دی ہے

جاوید کمال رامپوری

;

یاد اس کی کہاں بھلا دی ہے
ہم نے آواز بارہا دی ہے

لو سی پھر دے اٹھے ہیں زخم جگر
پھر کسی نے مجھے صدا دی ہے

دینے والے نے تیرا غم دے کر
ہائے کتنی بڑی سزا دی ہے

اب تو آ جاؤ رسم دنیا کی
میں نے دیوار بھی گرا دی ہے

آؤ آؤ قریب سے دیکھو
زندگی آنسوؤں کی وادی ہے