یاد اس کی کہاں بھلا دی ہے
ہم نے آواز بارہا دی ہے
لو سی پھر دے اٹھے ہیں زخم جگر
پھر کسی نے مجھے صدا دی ہے
دینے والے نے تیرا غم دے کر
ہائے کتنی بڑی سزا دی ہے
اب تو آ جاؤ رسم دنیا کی
میں نے دیوار بھی گرا دی ہے
آؤ آؤ قریب سے دیکھو
زندگی آنسوؤں کی وادی ہے
غزل
یاد اس کی کہاں بھلا دی ہے
جاوید کمال رامپوری