EN हिंदी
یاد تیری جو کبھی آتی ہے بہلانے کو | شیح شیری
yaad teri jo kabhi aati hai bahlane ko

غزل

یاد تیری جو کبھی آتی ہے بہلانے کو

احسان دربھنگوی

;

یاد تیری جو کبھی آتی ہے بہلانے کو
اور دیوانہ بنا جاتی ہے دیوانے کو

ہم بتائیں گے تمہیں شانہ و گیسو کے رموز
ختم کر لو حرم و دیر کے افسانے کو

اس کو محفل میں جو دیکھا تپش غم کا شریک
لے لیا شمع نے آغوش میں پروانے کو

بادہ کش واعظ کج فہم سے کیا بحث کریں
اس نے دیکھا ہے بہت دور سے میخانے کو

جب نہ احسان رہے گا نہ کہانی اس کی
آپ دہرائیں گے احسانؔ کے افسانے کو