EN हिंदी
یاد رکھنا ایک دن تیری زباں تک آؤں گا | شیح شیری
yaad rakhna ek din teri zaban tak aaunga

غزل

یاد رکھنا ایک دن تیری زباں تک آؤں گا

نقاش عابدی

;

یاد رکھنا ایک دن تیری زباں تک آؤں گا
خامشی کی قید سے حرف بیاں تک آؤں گا

تو یقیں کے آئنہ میں دیکھنا چاہے گا اور
میں فقط خوش فہمیٔ حد گماں تک آؤں گا

چھو کے تیرے ذہن کے خاموش تاروں کو کبھی
لے کے اک طوفاں ترے دل کے مکاں تک آؤں گا

پھر ترے احساس کے شعلوں میں ڈھل جائے گی رات
میں ابھر کر جس گھڑی اشک رواں تک آؤں گا

دسترس سے تیر بن کر بھی نکل جاؤں گا پھر
جب کبھی میں تیرے ابرو کی کماں تک آؤں گا

سرد آہوں میں سمٹ کر شدت احساس سے
قلب کی نازک رگوں کے درمیاں تک آؤں گا

اتنا مت سوچو کہ یہ نازک رگیں پھٹ جائیں گی
میں تمہارے ذہن میں آخر کہاں تک آؤں گا