یاد پڑتا تو نہیں کب مرا دیکھا ہوا ہے
ایسا لگتا ہے کہ یہ سب مرا دیکھا ہوا ہے
اور اس بت کی پرستش میں نیا کچھ بھی نہیں
اور کیوں دیکھوں اسے جب مرا دیکھا ہوا ہے
موت کچھ میرے لیے لائے تو لائے شاید
زندگی کا تو سبھی ڈھب مرا دیکھا ہوا ہے
اس دفعہ عشق کے جنگل سے نکل آؤں گا
راہ کا سارا فسوں اب مرا دیکھا ہوا ہے
کس طرح حسن کو لفظوں میں مقفل کر دوں
کس طرح کہہ دوں مرا رب مرا دیکھا ہوا ہے

غزل
یاد پڑتا تو نہیں کب مرا دیکھا ہوا ہے
ندیم احمد