EN हिंदी
یاد کے دریچوں میں بارشوں کے منظر ہیں | شیح شیری
yaad ke darichon mein barishon ke manzar hain

غزل

یاد کے دریچوں میں بارشوں کے منظر ہیں

جمشید مسرور

;

یاد کے دریچوں میں بارشوں کے منظر ہیں
کس نگر کی باتیں ہیں کن رتوں کے منظر ہیں

اجنبی دیاروں میں شوق دید لے جاؤ
کچھ نہیں تو ہر جانب دلبروں کے منظر ہیں

عمر ہو گئی لیکن اب بھی ہیں تعاقب میں
اس گلی سے آگے بھی تتلیوں کے منظر ہیں

دل کی نم زمینوں پر چل رہے ہیں ہم کب سے
دور زرد پیڑوں پر آندھیوں کے منظر ہیں

میں ہوں اور سمندر ہے پیش ساعد سیمیں
در پس رخ زریں پربتوں کے منظر ہیں

حسن کم قبا دریا اور ہوا برہنہ پا
نقش آج بھی دل پر جنگلوں کے منظر ہیں

کیا ہر ایک جانب سے چل کے خود تک آیا ہوں
میرے چار سو جمشیدؔ راستوں کے منظر ہیں