یاد جو آئے خود شرمائیں اف ری جوانی ہائے زمانے
جیٹھ میں بیٹھے ساون گائیں اف ری جوانی ہائے زمانے
ہنستے ہنستے روٹھ بھی جائیں اف ری جوانی ہائے زمانے
سونا چاندی دونوں کٹائیں اف ری جوانی ہائے زمانے
دور جنوں میں یاس کا عالم حشر سے پہلے حشر کا منظر
تپتا موسم سرد ہوائیں اف ری جوانی ہائے زمانے
دن کا چکر رات کے پھیرے پاؤں دبا کر راہ کا چلنا
چور کی صورت خود گھبرائیں اف ری جوانی ہائے زمانے
گیت سریلا تان انوکھی نشہ کا عالم کیف سراپا
جیسے کنھیا بنسی بجائیں اف ری جوانی ہائے زمانے
کس کا ڈر اور کس کا کھٹکا ایک ہی ساحل ایک ہی رستہ
سپنوں کی ناؤ کھیتے جائیں اف ری جوانی ہائے زمانے
آہ حبیبؔ اس دور کی باتیں خواب کی لذت یاس کا عالم
کرتی تھیں اشارے جب لیلائیں اف ری جوانی ہائے زمانے
غزل
یاد جو آئے خود شرمائیں اف ری جوانی ہائے زمانے
حبیب آروی