EN हिंदी
یاد ہیں وے دن تجھے ہم کیسے آواروں میں تھے | شیح شیری
yaad hain we din tujhe hum kaise aawaron mein the

غزل

یاد ہیں وے دن تجھے ہم کیسے آواروں میں تھے

جوشش عظیم آبادی

;

یاد ہیں وے دن تجھے ہم کیسے آواروں میں تھے
خار تھے ہر آبلوں میں آبلے خاروں میں تھے

اے گلابی مست پھر منہ لگ کے اس کے اس قدر
لعل لب کے ایک دن ہم بھی پرستاروں میں تھے

لب تلک بھی آ نہیں سکتے ہیں مارے ضعف کے
آہ فوج غم کے جو جانے حولداروں میں تھے

سامنے کل خوش نگاہوں کے جو آیا مر گیا
دیکھا ٹک کیا ہی جواہر ان کی ترواروں میں تھے

میرے اس کے درمیاں حرف آیا جب انصاف کا
پھر گئے اک مرتبہ جتنے طرف داروں میں تھے

نالہ و آہ و فغاں درد و الم سوز و گداز
آہ کیسے کیسے ؔجوشش اپنے غم خواروں میں تھے