EN हिंदी
یاد ہے آہ کا وہ رنگ نوا ہو جانا | شیح شیری
yaad hai aah ka wo rang-e-nawa ho jaana

غزل

یاد ہے آہ کا وہ رنگ نوا ہو جانا

محمد صادق ضیا

;

یاد ہے آہ کا وہ رنگ نوا ہو جانا
یوں فضاؤں میں سمٹنا کہ گھٹا ہو جانا

اس قدر کیف کہ مدہوش‌ فضا ہو جانا
دیکھنا ساز کو اور نغمہ سرا ہو جانا

حسن کی فطرت معصوم تھی پابند حجاب
عشق سے سیکھ لیا جلوہ نما ہو جانا

رسم آداب و محبت کا وہ پابند کہاں
جس کی تقدیر میں ہو نذر وفا ہو جانا

حسن اک عشق کی سوئی ہوئی کیفیت ہے
عشق ہے حسن کا بیدار وفا ہو جانا

نئی زنجیر ہے دنیا کا ہر اک ہنگامہ
اصل میں قید ہے زنداں سے رہا ہو جانا

مست پندار سہی ساز خودی کیوں چھیڑوں
بے خودی کو مری آتا ہے خدا ہو جانا

یاد ہے مجھ کو وہ گہوارۂ ظلمت کی فضا
اتنا تاریکی میں پھر تاکہ ضیاؔ ہو جانا