یاد ہے آہ کا وہ رنگ نوا ہو جانا
یوں فضاؤں میں سمٹنا کہ گھٹا ہو جانا
اس قدر کیف کہ مدہوش فضا ہو جانا
دیکھنا ساز کو اور نغمہ سرا ہو جانا
حسن کی فطرت معصوم تھی پابند حجاب
عشق سے سیکھ لیا جلوہ نما ہو جانا
رسم آداب و محبت کا وہ پابند کہاں
جس کی تقدیر میں ہو نذر وفا ہو جانا
حسن اک عشق کی سوئی ہوئی کیفیت ہے
عشق ہے حسن کا بیدار وفا ہو جانا
نئی زنجیر ہے دنیا کا ہر اک ہنگامہ
اصل میں قید ہے زنداں سے رہا ہو جانا
مست پندار سہی ساز خودی کیوں چھیڑوں
بے خودی کو مری آتا ہے خدا ہو جانا
یاد ہے مجھ کو وہ گہوارۂ ظلمت کی فضا
اتنا تاریکی میں پھر تاکہ ضیاؔ ہو جانا

غزل
یاد ہے آہ کا وہ رنگ نوا ہو جانا
محمد صادق ضیا