یاد ماضی کے اجالوں میں بہت دیر تلک
ڈوبا رہتا ہوں خیالوں میں بہت دیر تلک
نام سے بھی مرے واقف نہیں ہوتا کوئی
وہ جو رہتے نہ حوالوں میں بہت دیر تلک
جب بھی ان گالوں کے گرداب پہ پڑتی ہے نظر
غرق رہتا ہوں خیالوں میں بہت دیر تلک
مضطرب رہتی ہیں آہٹ پہ چمک جاتی ہیں
کون رہ پائے غزالوں میں بہت دیر تلک
نغمہ و ساز کی تاثیر طلسماتی ہے
گونج رہتی ہے شوالوں میں بہت دیر تلک
فضل رب جان کے جب کھاتا ہوں روکھی سوکھی
لطف آتا ہے نوالوں میں بہت دیر تلک
خوبیٔ شعر کے چرچے بھی رہے خوب سحرؔ
آپ کے چاہنے والوں میں بہت دیر تلک
غزل
یاد ماضی کے اجالوں میں بہت دیر تلک
منیرالدین سحر سعیدی