یاد خدا سے آیا نہ ایماں کسی طرح
کافر بنے نہ ہم نہ مسلماں کسی طرح
کرتے ہو وعدہ آنے کا ہے آنکھ منتظر
کب تک گزارے دن یہ ہے مہماں کسی طرح
آزاد عشق یار نے ہم کو بنا دیا
مال و متاع کا ہوں نہ میں خواہاں کسی طرح
پیتے رہو شراب جہاں تک کہ ہو سکے
شاغل نہ چھوٹے ساقی کا داماں کسی طرح
آ جاویں گر نصیب سے عالم ہے نزع کا
نکلے ہمارے دل کے بھی ارماں کسی طرح
مر جاؤں ان کے تیر نگہ سے نجات ہو
گردن پہ میرے ان کا ہو احساں کسی طرح
زنداں ہیں پھنس گیا دل مضطر نگاہ کے
بیٹھے ہیں پاسباں بنے مژگاں کسی طرح
بعد فنا بھی قبر کو مسمار کر دیا
اظہار رنج کا نہ ہو ساماں کسی طرح
ادوار میں اگرچہ ہے مرکزؔ گھرا ہوا
چھوڑے نہ تجھ کو رحمت سبحاں کسی طرح

غزل
یاد خدا سے آیا نہ ایماں کسی طرح
یاسین علی خاں مرکز