EN हिंदी
یاد ایامے کوئی وجہ پریشانی تو تھی | شیح شیری
yaad-e-ayyame koi wajh-e-pareshani to thi

غزل

یاد ایامے کوئی وجہ پریشانی تو تھی

کوثر جائسی

;

یاد ایامے کوئی وجہ پریشانی تو تھی
آنکھ یوں خالی نہیں تھی اس میں حیرانی تو تھی

لب پہ مہر خامشی پہلے بھی لگتی تھی مگر
آہ کی رخصت تو تھی اشکوں کی ارزانی تو تھی

تھی نظر کے سامنے کچھ تو تلافی کی امید
کھیت سوکھا تھا مگر دریا میں طغیانی تو تھی

بزم سے اٹھے تو کیا خلوت میں جا بیٹھے تو کیا
ترک دنیا پر بھی دنیا جانی پہچانی تو تھی

درد اک جوہر ہے پیکر سے غرض رکھتا نہیں
آنکھ میں آنسو نہ تھے لب پر غزل خوانی تو تھی