یاد اور غم کی روایات سے نکلا ہوا ہے
دل جو اس وقت مرے ہات سے نکلا ہوا ہے
مڑ کے دیکھے بھی تو پتھر نہیں ہوتا کوئی
جانے کیا شہر طلسمات سے نکلا ہوا ہے
رات یہ کون سا مہمان مرے گھر آیا
سارا گھر حلقۂ آفات سے نکلا ہوا ہے
حجرۂ ہجر میں بیٹھا ہے جو مجذوب صفت
عرصۂ شور مناجات سے نکلا ہوا ہے
لشکری گاؤں پہ شب خون نہیں ماریں گے
حوصلہ گشت پہ کل رات سے نکلا ہوا ہے
مانتے کب ہیں بھلا اونچے مکانوں والے
شہر کا شہر مضافات سے نکلا ہوا ہے
زر کا بندہ ہو کہ محرومی کا مارا ہوا شخص
جس کو دیکھو وہی اوقات سے نکلا ہوا ہے
غزل
یاد اور غم کی روایات سے نکلا ہوا ہے
توقیر تقی