EN हिंदी
یاد آتی رہی بھلا نہ سکے | شیح شیری
yaad aati rahi bhula na sake

غزل

یاد آتی رہی بھلا نہ سکے

نشور واحدی

;

یاد آتی رہی بھلا نہ سکے
شمع جلتی رہی بجھا نہ سکے

چاند تارے گل و چمن مل کر
دل کی اک داستاں سنا نہ سکے

آس باندھی تھی جن ستاروں سے
دیر تک وہ بھی جگمگا نہ سکے

نغمہ کیا مطربان عہد جدید
تار ٹوٹے ہوئے ملا نہ سکے

آج وہ رہبر خلائق ہیں
خود کو جو آدمی بنا نہ سکے

پنجۂ گل سے بھی یہ متوالے
دامن زندگی چھڑا نہ سکے

غم کے مارے ہوئے قلوب نشورؔ
درد کی سرحدوں کو پا نہ سکے