یا تو تاریخ کی عظمت سے لپٹ کر سو جا
یا کسی ٹوٹے ہوئے بت سے چمٹ کر سو جا
ننھا بچہ ہے تو آ ماں کے گھنے آنچل میں
رات کی چھلنی سڑک ہی سے لپٹ کر سو جا
ہر گھڑی شور مچاتی ہوئی مخلوق کے بیچ
اپنے ہونے کے یقیں سے ذرا ہٹ کر سو جا
نیند اڑنے کا مزہ تو بھی چکھا دے ان کو
چال مکار ستاروں کی الٹ کر سو جا
اوڑھ لے سارے بدن پر تو ہوا کی چادر
اور طوفان کی بانہوں میں سمٹ کر سو جا
اے خلیفہ اے نئے وقت کے ہارون رشید
تو روایات شب عدل سے کٹ کر سو جا

غزل
یا تو تاریخ کی عظمت سے لپٹ کر سو جا
ف س اعجاز