یارب شب وصال یہ کیسا گجر بجا
اگلے پہر کے ساتھ ہی پچھلا پہر بجا
آواز صور سن کے کہا دل نے قبر میں
کس کی برات آئی یہ باجا کدھر بجا
کہتے ہیں آسماں جو تمہارے مکاں کو ہم
کہتا ہے آفتاب درست اور قمر بجا
جاگو نہیں یہ خواب کا موقع مسافرو
نقارا تک بھی کوچ کا وقت سحر بجا
تعمیر مقبرے کی ہے لازم بجائے قصر
زر داروں سے کہو کہ کریں صرف زر بجا
ہیں ہم تو شادماں کہ ہے خط میں پیام وصل
بغلیں خوشی سے تو بھی تو اے نامہ بر بجا
تجھ کو نہیں جو ان سے محبت کہاں مجھے
تالی نہ ایک ہاتھ سے اے بے خبر بجا
نفرت ہے یہ خوشی سے کہ اشک اپنے گر پڑے
ہمراہ تعزیہ کے بھی باجا اگر بجا
جائے قیام منزل ہستی نہ تھی امیرؔ
اترے تھے ہم سرا میں کہ کوس سفر بجا
غزل
یارب شب وصال یہ کیسا گجر بجا
امیر مینائی