EN हिंदी
یا الٰہی مجھ کو یہ کیا ہو گیا | شیح شیری
ya ilahi mujhko ye kya ho gaya

غزل

یا الٰہی مجھ کو یہ کیا ہو گیا

دتا تریہ کیفی

;

یا الٰہی مجھ کو یہ کیا ہو گیا
دوستی کا تیری سودا ہو گیا

دوستی کیا ہم سری کا دھیان ہے
قید سے آزاد اتنا ہو گیا

کیسی آزادی اسیری چیز کیا
جب فنا رنگ تمنا ہو گیا

جب تمنا اور ڈر جاتا رہا
تو ہر اک شے سے مبرا ہو گیا

یوں مبرا ہو گئی جب کوئی ذات
بند پھر نغمہ صفت کا ہو گیا

جب ہوا اوصاف سے کوئی بری
عیب کیونکر اس میں پیدا ہو گیا

خود پرستی اس کو یا جو کچھ کہو
اب تو یہ عالم ہمارا ہو گیا

بے خودی نے محو حیرت کر دیا
آپ میں اپنا تماشا ہو گیا

جس کو دیکھا آپ ہی آیا نظر
رنگ اب کیفیؔ یہ اپنا ہو گیا