یا ڈر مجھے تیرا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا
یا حوصلہ میرا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا
ہم راہ رقیبوں کے تجھے باغ میں سن کر
دل دینے کا ثمرا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا
کہتا ہے بہت کچھ وہ مجھے چپکے ہی چپکے
ظاہر میں یہ کہتا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا
کہتا ہے تو کچھ یا نہیں آصفؔ سے یہ تو جان
یاں کس کو سناتا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا
غزل
یا ڈر مجھے تیرا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا
آصف الدولہ