EN हिंदी
وسعت چشم کو اندوہ بصارت لکھا | شیح شیری
wusat-e-chashm ko andoh-e-basarat likkha

غزل

وسعت چشم کو اندوہ بصارت لکھا

عزم بہزاد

;

وسعت چشم کو اندوہ بصارت لکھا
میں نے اک وصل کو اک ہجر کی حالت لکھا

میں نے لکھا کہ صف دل کبھی خالی نہ ہوئی
اور خالی جو ہوئی بھی تو ملامت لکھا

یہ سفر پاؤں ہلانے کا نہیں آنکھ کا ہے
میں نے اس باب میں رکنے کو مسافت لکھا

لکھنے والوں نے تو ہونے کا سبب لکھا ہے
میں نے ہونے کو نہ ہونے کی وضاحت لکھا

اشک اگر سب نے لکھے میں نے ستارے لکھے
عاجزی سب نے لکھی میں نے عبادت لکھا

میں نے خوشبو کو لکھا دسترس گمشدگی
رنگ کو فاصلہ رکھنے کی رعایت لکھا

زخم لکھنے کے لیے میں نے لکھی ہے غفلت
خون لکھنا تھا مگر میں نے حرارت لکھا

میں نے پرواز لکھی حد فلک سے آگے
اور ہے بال و پری کو بھی نہایت لکھا

حسن گویائی کو لکھنا تھا لکھی سرگوشی
شور لکھنا تھا سو آزار سماعت لکھا

اتنے دعووں سے گزر کر یہ خیال آتا ہے
عزمؔ کیا تم نے کبھی حرف ندامت لکھا