ورود جسم تھا جاں کا عذاب ہونے لگا
لہو میں اترا مگر زہر آب ہونے لگا
کوئی تو آئے سنائے نوید تازہ مجھے
اٹھو کہ حشر سے پہلے حساب ہونے لگا
اسے شبہ ہے جھلس جائے گا وہ ساتھ مرے
مجھے یہ خوف کہ میں آفتاب ہونے لگا
پھر اس کے سامنے چپ کی کڑی لبوں پہ لگی
مرا یہ منصب حرف آب آب ہونے لگا
میں اپنے خول میں خوش بھی تھا مطمئن بھی تھا
میں اپنی خاک سے نکلا خراب ہونے لگا
ضرور مجھ سے زیادہ ہے اس میں کچھ خالدؔ
مرا حریف اگر فتح یاب ہونے لگا
غزل
ورود جسم تھا جاں کا عذاب ہونے لگا
خالد کرار