وفور شوق میں آہ و فغاں کو بھول گئے
تم آ گئے تو غم دو جہاں کو بھول گئے
اسیر غم ہیں قفس میں گزار لیتے ہیں
چمن کو بھول گئے آشیاں کو بھول گئے
حیات چند نفس میں کشاکش پیہم
رہی ہے اتنی کہ درد نہاں کو بھول گئے
دراز دستیٔ اغیار کا گلا کیا ہے
عدو کو بھول گئے مہرباں کو بھول گئے
رہ حیات کی منزل عجیب پیچیدہ
کہاں کی راہ خود ہم کارواں کو بھول گئے
سنائیں عشق کی روداد کیا تمہیں اے برقؔ
ہے مختصر سی مگر داستاں کو بھول گئے
غزل
وفور شوق میں آہ و فغاں کو بھول گئے
برق حیدرآبادی