EN हिंदी
وفور شوق میں آہ و فغاں کو بھول گئے | شیح شیری
wufur-e-shauq mein aah-o-fughan ko bhul gae

غزل

وفور شوق میں آہ و فغاں کو بھول گئے

برق حیدرآبادی

;

وفور شوق میں آہ و فغاں کو بھول گئے
تم آ گئے تو غم دو جہاں کو بھول گئے

اسیر غم ہیں قفس میں گزار لیتے ہیں
چمن کو بھول گئے آشیاں کو بھول گئے

حیات چند نفس میں کشاکش پیہم
رہی ہے اتنی کہ درد نہاں کو بھول گئے

دراز دستیٔ اغیار کا گلا کیا ہے
عدو کو بھول گئے مہرباں کو بھول گئے

رہ حیات کی منزل عجیب پیچیدہ
کہاں کی راہ خود ہم کارواں کو بھول گئے

سنائیں عشق کی روداد کیا تمہیں اے برقؔ
ہے مختصر سی مگر داستاں کو بھول گئے