وہ ظلم تو کرتے ہیں سزا سے نہیں ڈرتے
اس دور کے انسان خدا سے نہیں ڈرتے
ایسے بھی ہیں کچھ لوگ جو دولت کے نشے میں
مظلوم کی آہوں سے دعا سے نہیں ڈرتے
ہر حال میں جینے کی قسم کھائی ہے ہم نے
ہم اہل محبت ہیں جفا سے نہیں ڈرتے
ہم زہر بھی پی لیں گے بڑے شوق سے لیکن
ڈرتے ہیں مسیحا سے دوا سے نہیں ڈرتے
مر کر بھی دکھا دیں گے ترے چاہنے والے
ہیں طالب دیدار فنا سے نہیں ڈرتے
ہر حال میں منزل پہ نظر ہوتی ہے جن کی
راہوں میں کبھی راہنما سے نہیں ڈرتے
اس دور میں جینا کوئی آساں نہیں ساگرؔ
ہر روز جو مرتے ہیں کذا سے نہیں ڈرتے

غزل
وہ ظلم تو کرتے ہیں سزا سے نہیں ڈرتے
روپ ساگر