EN हिंदी
وہ ظلم و ستم ڈھائے اور مجھ سے وفا مانگے | شیح شیری
wo zulm-o-sitam Dhae aur mujhse wafa mange

غزل

وہ ظلم و ستم ڈھائے اور مجھ سے وفا مانگے

فردوس گیاوی

;

وہ ظلم و ستم ڈھائے اور مجھ سے وفا مانگے
جیسے کوئی گل کر کے دیپک سے ضیا مانگے

جینا بڑی نعمت ہے جینے کا چلن سیکھیں
اچھا تو نہیں کوئی مرنے کی دعا مانگے

غم بھی ہے اداسی بھی تنہائی بھی آنسو بھی
سب کچھ تو میسر ہے دل مانگے تو کیا مانگے

آئین وطن پر تو دل وار چکے اپنا
ناموس وطن ہم سے اب رنگ حنا مانگے

اوقات ہے کیا اس کی وہ پیش نظر رکھے
انساں نہ کوئی اپنے دامن سے سوا مانگے

رمتا ہوا جوگی ہوں بہتا ہوا پانی ہوں
ہرگز نہ کوئی مجھ سے اب میرا پتا مانگے

پھر چہرۂ قاتل کی نظروں کو ضرورت ہے
پھر کوچۂ قاتل کی دل آب و ہوا مانگے

وہ سیر گلستاں کو فردوسؔ جو آ جائے
مسکان کلی چاہے رفتار صبا مانگے