وہ یوں کھو کے مجھے پایا کریں گے
مرا افسانہ دہرایا کریں گے
ستم اپنے جو یاد آیا کریں گے
تو دل ہی دل میں پچھتایا کریں گے
غرور حسن کو باطل سمجھ کر
سراپا عشق بن جایا کریں گے
نہ ہوگی تاب ضبط غم جب ان کو
یقیناً اشک بھر لایا کریں گے
قیامت ہوں گی نازک دل کی آہیں
ہر اک ذرے کو تڑپایا کریں گے
فلک ماتم کرے گا بے کسی پر
مہ و انجم ترس کھایا کریں گے
مجھے ہر گام پر ٹھکرانے والے
مجھی پر ناز فرمایا کریں
نہ ہوگی جب سکوں کی کوئی صورت
کچھ اپنے دل کو سمجھایا کریں گے
ہر اک تدبیر جب ناکام ہوگی
تو مجھ کو رو بہ رو پایا کریں گے
نگاہوں سے ملا کر وہ نگاہیں
یکایک رخ بدل جایا کریں گے
وہی ناز و ادا کی شکل ہوگی
اسی صورت سے شرمایا کریں گے
میں کہتا ہی رہوں گا قصۂ غم
وہ سنتے سنتے سو جایا کریں گے
مگر جب ہوگا عالم عالم خواب
نہ پا کر مجھ کو گھبرایا کریں گے
شکیلؔ اپنے لئے لمحات فرصت
پیام نو بہ نو لایا کریں گے
غزل
وہ یوں کھو کے مجھے پایا کریں گے
شکیل بدایونی