وہ وسعتیں تھیں دل میں جو چاہا بنا لیا
صحرا بنا لیا کبھی دریا بنا لیا
یوں رشک کی نگاہ سے کس کس کو دیکھتے
ہر آرزو کو اپنی تمنا بنا لیا
کب تک جہاں سے درد کی دولت سمیٹتے
خود اپنے دل کو غم کا خزینہ بنا لیا
دنیا کی کوفتوں کو گوارا نہ کر سکے
عقبیٰ کو زندگی کا سہارا بنا لیا
تھی کائنات حسن کی سادہ سی اک جھلک
ہم نے نگاہ شوق سے کیا کیا بنا لیا
اس دل کو ہم نے تیری نگاہوں کے ساتھ ساتھ
بیگانہ کر لیا کبھی اپنا بنا لیا
غزل
وہ وسعتیں تھیں دل میں جو چاہا بنا لیا
صوفی تبسم