EN हिंदी
وہ امنگیں ہیں نہ وہ دل ہے نہ اب وہ جوش ہے | شیح شیری
wo umangen hain na wo dil hai na ab wo josh hai

غزل

وہ امنگیں ہیں نہ وہ دل ہے نہ اب وہ جوش ہے

کیفی حیدرآبادی

;

وہ امنگیں ہیں نہ وہ دل ہے نہ اب وہ جوش ہے
حسن بار چشم ہے نغمہ وبال گوش ہے

میں کہوں تو کیا کہوں اب وہ کہے تو کیا کہے
دے کے دل خاموش ہوں وہ لے کے دل خاموش ہے

اے وفور شادمانی یہ سمجھ لینے تو دے
کیا ہمیں ہیں جس سے وہ ہم بزم ہم آغوش ہے

اس طرف دل پر جگر پر اس طرف رہتا ہے ہاتھ
اپنی ہر کروٹ میں اک معشوق ہم آغوش ہے

تار اس کا ٹوٹنے پائے نہ کیفیؔ حشر تک
دامن اشک ندامت جرم عصیاں پوش ہے