وہ تجھ کو توڑ کے مثل حباب کر دے گا
ترا غرور تجھے آب آب کر دے گا
ٹھہر سکے گی کہاں شبنمی گہر کی چمک
بس اک نظر میں فنا آفتاب کر دے گا
کبھی تو پھیلے گی باغ حیات میں خوشبو
گلاب کھل کے فضا کو گلاب کر دے گا
رخ فریب پہ ٹھہرے گی کیا نقاب فریب
ترا فریب تجھے بے نقاب کر دے گا
نہ راس آئے گی تعبیر خواب مستقبل
یہ وقت خواب کے منظر کو خواب کر دے گا
دکھا کے چہرۂ ماضی کے خد و خال تجھے
سوال دور رواں لا جواب کر دے گا
جہاں کو دے گی جو کوثرؔ پیام امن و اماں
ادیب وقت رقم وہ کتاب کر دے گا
غزل
وہ تجھ کو توڑ کے مثل حباب کر دے گا
کوثر سیوانی