EN हिंदी
وہ تو مل کر بھی نہیں ملتی ہے | شیح شیری
wo to mil kar bhi nahin milti hai

غزل

وہ تو مل کر بھی نہیں ملتی ہے

تری پراری

;

وہ تو مل کر بھی نہیں ملتی ہے
جانے کس دھن میں رہا کرتی ہے

چوم لیتی ہے مرا ماتھا جب
ایک خوشبو سی برس پڑتی ہے

سوچ لیتا ہوں اسے دم بھر کو
اور یہ روح مہک اٹھتی ہے

میں جسے کہہ نہ سکوں گا ہرگز
آج وہ بات مجھے کہنی ہے

لوگ کہتے ہیں محبت جس کو
سر پھری بگڑی ہوئی لڑکی ہے

اپنی دنیا کے مسائل میں وہ
اپنی زلفوں کی طرح الجھی ہے

میں ندی نیند کی اور وہ مجھ میں
خواب مچھلی کی طرح رہتی ہے